روس و افغانستان جنگ میں تاریخ کا سبق۔
کسے خبر تھی کہ مادی لحاظ سے یہ کمزور ملک اور دنیا وی ترقیوں سے دور یہ افرادِ بشر ایک دن ایک بڑے سورما اور سامراج کے تخت کو تاراج کریں گے؟ دکھنے میں بہت کمزور،افرادی طاقت میں بے بس،مادیات میں ادنی درجہ سے بھی محروم یہ قوم کس طرح ہر طرح کے پاور فل دشمن کو ناکوں چنے چھبوائے گی؟مگر کچھ فیصلے ایسے ہوتے ہیں جن کا دار ومدار مظاہر پر نہیں ایمانی بصیرت اور خدائی نصرت پر ہوتا ہے-انہیں میں سے ایک فیصلہ یہ تھا کہ افغانستان کے غیور عوام نے اپنی ایمانی قوت کے بل بوتے روس کے پرخچے اڑادئیے تھے-
آج سے ٹھیک بتیس سال قبل 26 دلو سن 1367 هش کو روس نے افغانستان کے مظلوم عوام کے سامنے سرنڈر ہونے کا اعلان کیا اور افغانستان سے راہ فرار اختیار کی-روایات میں آتا ہے کہ بدر کے دن رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوجہل کا سر کاٹنے کے لیے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا اور انہوں نے ہی سر کاٹ کر خدمتِ اقدس میں پیش کیا تھا-محدثین اس روایت میں ایک باریکی یہ بیان کرتے ہیں کہ ابوجہل کو غرور تھا اور اس گھمنڈ میں مبتلا تھا کہ میں عرب کا سردار ہوں-اعلی نسب کا ہوں-قوت میں کئی طاقتور پہلوانوں کے برابر ہوں-وسائل وآلات سے مالا مال ہوں-کسی سطح پر بھی لشکر محمدی میرا ہم پلہ نہیں ہے-جب کہ دوسری طرف حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ انتہائی دبلے پتلے اور نحیف وناتواں شخصیت تھے-ان کی باریک پنڈلیوں کو دیکھ کر ساتھیوں کو ترس آجاتا تھا-مگر خدا کی شان کہ سب سے طاقتور کے قلع قمع کرنے کے لیے سب سے زیادہ ناتواں ہی کا انتخاب ہوا-تاکہ یہ بتایا جائے کہ رعب اور دبدبہ، طاقت وقوت اور شان وشوکت اس ذات کو جچتی ہے کسی اور کو نہیں-لیکن اس اصول سے جو سرِمو انحراف کرے گا تو اس کا انجام ابوجہل کی طرح ہی ہوگا-
جس وقت روس افغانستان پر حملہ آور ہورہا تھا تو دونوں جانب کیفیت اس روایت سے مختلف نہیں تھی-روس جنگی ساز وسامان میں عالمی سطح کا ایک طاقتور مملکت تھا-افرادی قوت میں اس کا طوطی بولتا تھا-جس کی بنیاد پر اس نے دنیا کو مسخر کرنے کا ارادہ کیا تھا اور شروع اس مظلوم مملکت سے کردی جس میں ٹکنالوجی سے محرومیت تھی-غربت و بے روزگاری عروج پر تھی-افرادی قوت میں روس کا اس سے کوئی تقابل ہی نہیں تھا-پھر روس نے اپنا رعب اچھی طرح جمانے کے لیے وحشت اور درندگی میں کوئی کسر نہ چھوڑی-والد صاحب بتاتے ہیں کہ یہ وحشی جب کسی علاقے میں گھس جاتے تو شروع میں اپنے لڑاکا طیاروں سے وہ آندھی بمباری کرتے جس سے انسان زندہ بچ نکلتا تھا اور نہ ہی حیوان-پھر انہیں طیاروں کے زیرسایہ یہ وحشی، بچے کچھے انسانوں کی تلاش میں نکلتے-جہاں کہیں کوئی جاندار انسان ملتا تو اسے بری طرح سے قتل کرکے پاوں تلے روند ڈالتے تھے-نوبت یہاں تک پہنچتی تھی کہ اگر کہیں کوئی انسان نہیں ملتا تو یہ درندے جانوروں کو اپنے ظلم وستم کا نشانہ بنا ڈالتے اور انہیں قتل کردیتے-
اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی ملین افغانی ملک چھوڑنے پر مجبور ہوگئے-لاکھوں لوگ ان کی درندگی سے شہید ہوئے-لاتعداد افراد زخموں سے چور ہوئے-آبادیاں ویراں ہوگئیں-رونقیں لٹ گئیں-حرمتیں پامال ہوگئیں-شہروں کے شہر اور بستیوں کی بستیاں اجڑ گئیں-مگر ان سب کچھ کے باوجود ایک چیز بہر حال برقرار رہی اور وہ تھی ایمان کی چنگاری جو ہربندہ مؤمن کے دل میں سلگتی تھی-وہ ایمانی حرارت جو کسی کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتی تھی-جس کی بنیاد پر جہاد فی سبیل اللہ کا علم بلند ہوا-بظاہر یہ ایک ناداں سی حرکت تھی جو تباہی کے دہانے تک پہنچاتی تھی-کیونکہ ایک طرف سب کچھ اور دوسری طرف کچھ بھی پاس نہیں تھا-لیکن بصیرت سے روشناس لوگ اس کی حقیقت سمجھتے تھے-اس لیے ظاہری خدشات سے بے نیاز ہوکر حق کے عملبردار ہوئے اور بھرپور مزاحمت کی-کچھ نہ ہونے کے باوجود بھی وہ کارنامے سرانجام دئیے جن کی وجہ سے تاریخ پڑھتے وقت گزشتہ واقعات کی تصدیق کرنی پڑتی ہے-وہ قربانیاں پیش کی گئی جن کی نظیر نہیں ملتی-عزیمت کے وہ مناظر دیکھنے کو ملے جس کے بیان کرنے کا قلم حق ادا کرسکتا ہے اور نہ ہی زبان-
تب اللہ کی نصرت جوش میں آئی اور وقت کے عبداللہ مسعود (افغانستان)سے وقت کے ابوجہل (روس)کا سر کٹواکر رہے-
آج جبکہ روس کی شکست کو بتیس سال گزر گئے ہیں-تو افغانستان کے غیور مجاہدین ایک اور قوت سے نبرد آزما ہیں-حالت بھی وہی ہے اور کیفیت بھی-جبکہ نصرتِ خداوندی سے نتیجہ بھی وہی آرہا ہے کہ سب سے زیادہ متکبر سب سے زیادہ ضعیف شخص کے ساتھ کشتی میں پچھڑنے کو ہے-اس سے دنیا کو سبق لینا چاہیے اور تاریخ کا یہ پیغام اپنے سینوں میں سنبھال رکھ لینا چاہیے-
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں