(1939-1945)دوسری جنگ عظیم
دوسری جنگ عظیم ایک عالمی جنگ تھی جو 1939ء سے شروع ہوئی اور 1945ء میں ختم ہوئی۔
دوسری جنگ عظیم تاریخ کا مہلک ترین فوجی تصادم تھا۔ ایک اندازے کے مطابق مجموعی طور پر 70–85 ملین افراد ہلاک ہوگئے ، جو 1940 کی عالمی آبادی کا تقریبا 3 فیصد (تقریبا 2. 2.3 بلین) ۔
:جنگ ہونے کی وجوہات
جنگ عظیم دوم کی بہت ساری وجوہات تھیں ان میں سے کچھ پر میں روشنی ڈالتا ہوں تاکہ آپ لوگوں کو تھوڑا سا بیک گراؤنڈ کا پتہ چل جائے۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پہلی جنگ عظیم کے دوران جرمنی اور برطانوی اتحادیوں کے مابین ایک معاہدہ ہوا تھا جس کو ورئیلز کا معاہدہ کہا جاتا ہے اس معاہدے کو جرمنی کے لوگوں نے دل سے تسلیم نہیں کیا تھا لیکن ایک شکست خوردہ قوم کو اسے قبول کرنے کے علاؤہ کوئی چارہ نہیں تھا ۔ اس معاہدے کے خلاف جرمن عوام میں بہت غصّہ پایا جاتا تھا وجہ پہلی جنگ عظیم میں امریکہ کی مکاری اور جرمنی لوگوں کا یہ ماننا تھا کہ یہودیوں نے مخالف گروپ کی مدد کی ہے ۔ ہٹلر نے اس غصے سے فائدہ اٹھایا اور انتقام لینے کے نعرے کے ساتھ 1933 میں اقتدار میں آگیا اور کہا کہ ہم جرمنی کا کھویا ہوا مقام واپس حاصل کرینگے ۔
دوسری وجہ جاپان میں فوجی طاقت کا مضبوط ہونا ، جاپان میں فوجی طاقت بہت مضبوط تھی
ایک اور جو بنیادی اور بڑی وجہ اس جنگ کے ہونے کی تھی وہ برطانوی امریکہ اور فرانس کا مختلف کالونیوں پر قبضہ اور لوٹ مار۔ مختصراً یہ دولت اور اقتدار کی جنگ تھی۔ ہر ملک پہلی جنگ عظیم کی طرح اقتدار اور طاقت حاصل کرنا چاہتا تھا ، فرق صرف یہ تھا کہ پہلی جنگ عظیم فوج کے مابین لڑی گئی تھی سویلین زیادہ شامل نہیں تھے جبکہ دوسری جنگ عظیم میں شہری بھی اس جنگ میں شامل تھے یہاں تک کہ سکول کالج ہپستال کارخانوں اور فیکٹریوں وغیرہ پر بھی بمباری کی گئی۔ خاص کر شہراور فیکٹریوں کو نشانہ بنایا گیا۔
جرمنی ، جاپان اور اٹلی میں قوم پرستی اور آمریت کا عروج
مسولینی اٹلی میں ڈکٹیٹر تھا ، جاپان میں فوجی طاقت عروج پر تھی ۔ جرمنی میں ڈکٹیٹر ہٹلر تھا۔ یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ ان ممالک میں فوجی
طاقت ہی کیوں۔۔۔؟
کیونکہ پہلی جنگ عظیم کے بعد اٹلی دوسرے ممالک جیسے عرب ممالک اور دوسرے یورپی ممالک اور خاص کر جرمنی میں برطانیہ نے ہر بدعنوان پارٹی کو اقتدار میں آنے اور براہ راست یا بلواسطہ طور پر ان کی مدد کی تاکہ مستقبل میں ان کا استعمال کیا جا سکے۔ خاص طور پر جرمنی میں یہودیوں کی لابی پہلی جنگ عظیم کے بعد بھی بہت مضبوط ہوئی انھوں نے خبروں ، صنعتوں اور سیاسی جماعتوں وغیرہ پر براہ راست یا بالواسطہ طور پر گرفت مضبوط کی۔ اور ورسیل کے ذلت آمیز معاہدے کی شرائط قبول کرنے کے پیچھے ان یہودیوں کا ہاتھ تھا یہ بات یاد رکھیے کہ یہودیوں کا صرف استعمال کیا گیا اصل طاقت کیپٹلسٹ ممالک امریکہ اور برطانیہ تھے جیسے آج پاکستان ایک اسلام کے نام پر بنے ملک میں سارے اصول کیپٹلزم کے ہی ہیں انھوں نے آج ہم پر ایسے قوانین اور حکمران مسلط کر دیے ہیں جو صرف ان بڑی ملٹی نیشنل کمپنیوں اور ان سرمایہ داروں کے لیے کام کر کے اپنی دولت بنانے میں مصروف ہیں ان کو پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں بس اپنی کمائی کرنی ہے اس طرح ان ممالک میں بھی یہی اصول تھا کہ باہر بیٹھ کر دوسرے ملک کو لوٹو۔
دوسری جنگ عظیم میں ہٹلر پارٹی کا نام NSDP
تھا (قومی سوشلسٹ جرمن ورکرز پارٹی جسے کسی وقت NAZI کا حصہ کہا جاتا تھا)۔
ہٹلر جو NAZI
1933 پارٹی کا رہنما تھا جنوری
میں چانسلر بن گیا تھا۔ جرمنیی میں یہ وزیر اعظم کی طرح کا عہدہ ہے۔ جب ہٹلر اقتدار میں آیا . تو وہ اپنی فوج کو مضبوط بنانا شروع کرتا ہے اور فضائیہ کو بھی۔ ورئیلز کے معاہدہ کے مطابق جرمنی کو اپنی عسکری طاقت میں اضافہ کرنے کی اجازت نہیں تھی لیکن جرمنی نے اس معاہدے کی خلاف ورزی شروع کردی کیونکہ اس معاہدے کی شرائط جرمنی کے لیے بہت رسوا کن تھیں۔ در حقیقت اس معاہدے کی حلاف ورزی برطانوی حکومت ، فرانس اور امریکہ کے چہرے پر ایک بہت بڑا طمانچہ تھا جرمن قوم کا یہ ماننا تھا کہ جنگ عظیم اول میں شکست کی بہت ساری وجوہات کے ساتھ ایک بہت بڑی وجہ یہودیوں کا منافقانہ رویہ بھی تھا ۔ پہلی جنگ عظیم میں یہودیوں کے عدم اعتماد کی وجہ سے جرمن قوم یہودیوں سے بہت نفرت کرتی تھی ، لہذا ، ہٹلر پارٹی نے بھی ایسا شروع کیا ۔اس نے یہودیوں کی جرمنی سے علیحدگی شروع کردی بلکہ اصل میں جرمنی صرف جرمن پرست تھی ان کی نظر میں صرف جرمن قوم اپنے ملک کے لیے قابل اعتماد تھی اور دوسری ساری اقوام جو جرمنی میں رہتی تھیں کو الگ کرنا شروع کیا تو صرف یہودیوں کو نہیں بلکہ دوسرے اقوام کے ساتھ بھی یہی کیا مگر ان کے اوپر قتل یا تشدد کچھ بھی نہیں کیا صرف الگ کیا ہٹلر پارٹی کا نعرہ تھا "فادر لینڈ کی شان بحال کرنا"۔ (مطلب جرمنی) جنگ عظیم کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ چین جاپان کی جنگ بھی ہے دوسری چین جاپان جنگ ایشیاء میں اس جنگ کا نام دوسرا چین ، جاپان جنگ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ جنگ کا آغاز 1937 میں ہوا۔ لیکن جنگ سے پہلے جاپان نے 1910 میں اپنی فوجی طاقت میں بہتری لائی۔ کوریا (جنوبی کوریا اور شمالی کوریا) پر حملہ کیا. 1931 میں جاپان نے منچوریا پر حملہ کیا۔ منچوریہ چین میں فصل کاشت کرنے والی بہترین اراضی میں شامل ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ جاپان کی اپنی زمین کاشت کرنے کے لیے موضوع نہیں اور دوسری سب سے اہم وجہ چین کی بندرگاہوں کو اپنے قبضے میں لینا کیونکے بندرگاہ پر قبضہ مطلب تجارتی راستوں پر قبضہ جس کا مطلب تجارت پر قبضہ جن کی وجہ سے مختلف ممالک کی طرف سے اپکو سپورٹ مل جاتا ہے جو ان ممالک کی ایک محبوری بھی ہوتی ہے۔ لہذا چین پر حملہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ اس کو کالونی بنایا جایا اور اس سے فائدہ اٹھایا جاۓ.۔ برطانیہ ، فرانس اور امریکہ کی طرح جو ایشیا افریقہ یورپ میں اپنی نوآبادیاتی اراضی سے فائدہ اٹھا رہے تھے. 1937 میں جاپان نے چین پر مکمل حملہ کیا ، جاپان نے بڑے شہروں اور چین کی بندرگاہوں شنگھائی وغیرہ پر حملہ کیا۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ جاپان کے حملے سے پہلے چین میں دو گروہوں کے درمیان خانہ جنگی چل رہی تھی۔ چین کا پہلا گروپ قوم پرست تھا اور دوسرا گروہ کمیونسٹ تھا ان دونوں کے ردمیان جنگ زور و شور سے جاری تھی۔ جاپان نے اس کا فائدہ اٹھایا اور چین ، خاص طور پر بحر یا سمندر کے قریب بندرگاہوں اور تجارتی مراکز پر حملہ کیا. قوم پرست اور کمیونسٹ غاروں کے اندر چھپ گئے اور وہاں سے جاپان کے فوجیوں پر حملے کرنا شروع کردیے۔ یہ جنگ 1945 تک جاری رہی یہاں تک کہ جاپان نے دوسری جنگ عظیم میں شکست کھائی۔ منچوریہ پر قبضہ کرنے کے بعد جاپان نے منچوریا کا نام تبدیل کرکے مانچوکو رکھ دیا۔ جاپان امریکہ ، فرانس اور برطانیہ کی طرح ایک بڑی طاقت بننا چاہتا تھا جس طرح یہ ممالک نے مختلف کالونیاں بنائی تھی اور ان کی لوٹ مار میں مصروف تھے اس طرح جاپان بھی چاہتا تھا۔ جنگ عظیم اول کی طرح جنگ عظیم دوم بھی وسائل پر قبضے کی جنگ تھی۔ مختلف ممالک کے مختلف طاقت پرست گروہ چاہتے تھے کہ دنیا کے وسائل اور ممالک پر کنٹرول حاصل کر کے انکے وسائل کو لوٹا جائے اور ان کو سیاسی طور پر غلام بنا کر خود کو طاقتور بنایا جائے ۔جس طرح برطانیہ ،امریکہ اور فرانس کے ایشیا، یورپ افریقہ وغیرہ میں مختلف ممالک پر قبضہ کرکے ان کے وسائل کو لوٹ رہے تھے اس طرح جرمنی اور جاپان بھی یہی چاہتا تھا تو بنیادی طور پر یہ وسائل پر قبضہ کرنے کی جنگ تھی 1936 میں ہٹلر نے اپنے ہی علاقے رائن لینڈ میں دوبارہ عسکری طاقت کو بڑھنا شروع کیا۔ رائن لینڈ بیلجیئم اور فرانس کے مابین کا علاقہ تھا اس کے درمیان میں نہر جس کا نام رائنیل تھا کی وجہ سے یہ نام پڑا۔ 1936 میں ہٹلر نے اپنے علاقے کو عسکری اور کارخانوں کو دوبار فعال یا بحال کیا۔ یہ علاقہ جرمنی کی صنعتی زون میں سے ایک تھا جہاں سامان ، اسلحہ وغیرہ بنایا جاتا تھا۔ لیکن معاہدے کے مطابق جرمنی پر یہ نافذ کیا گیا تھا کہ جرمنی کی فوج یہاں کبھی نہیں آئے گی۔ لیکن جرمنی نے ایک بار پھر برطانوی ، فرانس اور امریکہ کے منہ پر یہ طمانچہ مارا کیونکے یہ معاہدہ بہت غیر منصفانہ تھا مطلب آپ کسی کو بھی اپنی سرزمین کو ترقی دینے کے مقصد کے لئے استعمال کرنے پر پابندی عائد کرتے ہیں تکہ وہ ملک ےرقی نا کرے جبکہ دعسرے طرف امریکہ برطانیہ اور فرنس جو سامراج کا ٹولہ تھا صرف طوہی ترقی کرے گا ۔ جرمنی پر پابندی عائد کرنے کے پیچھے اپنی فوجی یا صنعتی طاقت میں ترقی نہ کرنا اور بیلجیم اور فرانس پر اس علاقے کے ذریعے دوبارہ حملہ نہ کرنا تھا۔ (یہاں آپ کے ذہن میں یہ سوال پیدا ہوسکتا ہے کہ جرمنی اگر لیگ آف نیشنل کے قوانین کی خلاف ورزی کرتا ہے تو امریکہ ، برطانوی اور فرانس جرمنی پر حملہ کیوں نہیں کریں گے۔ اس کی وجوہات پہلے جرمنی زیادہ طاقتور ہوگئی ، دوسرا امریکہ ، فرانس اور برطانیہ خود لیگ کے ان معاہدوں اور قوانین کی خلاف ورزی کر رہے تھے۔ کالونیاں بناکر اور ان کے وسائل پر قبضہ کرکے، تیسری بات بہت سارے ممالک لیگ کی پرواہ نہیں کرتے کیونکہ لیگ آف نیشنل کی پابندیاں بہت زیادہ غیر منصفانہ تھیں)۔ 1938 جرمنی 1938 میں جرمنی نے اپنے آپ کو کچھ ممالک سے جوڑنا اور انیکس کرنا شروع کیا۔ پہلا پہلا آسٹریا تھا ، آسٹریا کے الحاق کو آنچلوس (مطلب شمولیت) کہا جاتا تھا کیونکہ ہٹلر کو یقین ہے کہ آسٹریا تاریخی طور پر اس کا اپنا حصہ الگ نہیں تھا اور وہاں رہنے والے جرمنی کے نسلی تھے۔ لیکن اس کو ورسائیل کے معاہدے کے مطابق ایک علیحدہ کاؤنٹی بنادیا گیا تھا جو اس کی قوم کی خواہشات کے منافی تھا۔ لیٹر چیکوسلوواکیا نے بھی جرمنی سے الحاق کرلیا۔ اس علاقوں کے لوگ جرمن نسلی تھے لیکن ورسیئلز کے معاہدے کے مطابق یہ علاقہ تقسیم ہوگیا تھا اور تمام نئے ممالک متنازعہ ہوگئے تھے۔ واقعات 1939ء ہٹلر اور مسولینی یکم ستمبر 1939ء کو جرمنی نے پولینڈ پر حملہ کیا۔ 3 ستمبر برطانیہ اور فرانس نے جرمنی کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ 28 ستمبر جرمنی اور روس میں پولینڈ کی تقسیم کے بارے میں معاہدہ ہوا۔ 30 نومبر کو روس نے فن لینڈ پر حملہ کر دیا۔ فن لینڈ پر حملے کے بعد جرمنی نے روس کو بھی اپنا دشمن بنا لیا 1940ء 9 اپریل 1940ء کو جرمنی نے ڈنمارک پر قبضہ کر لیا۔ اور ناروے پر حملہ کیا۔ 10 مئی کو جرمنی نے بلیجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ پر حملہ کیا۔ انہی دنوں چرچل وزیر اعظم بنا۔10 جون کو اطالیہ نے فرانس کے خلاف اعلان جنگ کیا۔ 13 جون جرمنی نے پیرس پر قبضہ کر لیا۔ 22 جون فرانس نے ہتھیار ڈال دیے۔ 27 ستمبر کوجرمنی، اطالیہ، جاپان کا سہ طاقتی معاہدہ ہوا۔ 1941 14 اپریل 1941ء روس اور جاپان نے معاہدہ غیر جانبداری سامنے آیا۔ 22 جون کو روس پر جرمنی نے حملہ کر دیا۔ 25 تا 29 اگست برطانیہ اور روس کا ایران پر حملہ اور قبضہ ہوا۔ 7دسمبر کو جنگ میں اعلان کے بغیر جاپان نے شمولیت اختیار کی.
(امریکہ برطانیہ کے مظالم ،ہندوستان کی قحط، چاپان پر ایٹمی حملہ اور نئے سرمایہ دارانہ نظام کا علان)
اس وقت سب سے زیادہ بری حالت ہندوستان کی تھی برطانیہ نے ہندوستانیوں کا خون چوسنے لگا لاکھوں لوگ قحط کی وجہ سے مرنے لگے ہندوستان اور خصوصاً بنگال جو کے بحری راستہ اور بندرگاہوں کی وجہ سے وہاں آسانی سے برطانیہ اور امریکہ کے فوجیوں کو خوراک پہچانے میں آسانی تھی میں خوراک کا پورا صفایا کیا گیا جس کی وجہ سے پورے ہندوستان اور خصوصاً بنگال میں لاکھوں لوگ بھوک سے مرنے لگے۔ حالات اتنی خوفناک تھی جیسے قیامت کا منظر ہو۔ بھوک سے سڑکوں راستوں اور گلیوں میں لوگ مرنے لگے والدین کے سامنے بچے مارنے لگے تو کیسی جگہ بچوں کے سامنے اس کے والدین مارنے لگے خاندان کے خاندان ختم ہوئے لاکھوں لوگ جو بھوک کی وجہ سے بہوش تھے ان کو مردہ سمجھ کر دوسرے الفاظ میں جان بوجھ کر زندہ جلایا گئے۔ انگریز اور انگریزوں کے وفادار سرمایہ دار وڈیرے وغیرہ جن کی اولاد آج پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ اور پارلیمنٹ میں بیٹھے ہیں اور اوپر سے 90٪ سے زیادہ وسائل پر انکا ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ مل کر قبضہ ہے اور ملک کو لوٹنے میں مصروف ہے حود عیش پرستی کر رہے تھے۔ ہر جگہ انسانوں کی مرنے کی وجہ سے بدبو پھیلی ہوئی تھی کتے کوے وغیرہ انسانوں کا گوشت کھا رہے تھے اسکے باوجود انگریزوں کا ظلم مزید بڑھتا رہا اور یہاں تک جنگ عظیم کے ہر اول دستے میں ہندوستانی اور دوسرے کالونیوں کے لوگ استعمال ہوے تاکہ سفید فام گورے کم سے کم مرے، ان سرمایہ داروں کو صرف اپنی دولت کی پڑی تھی انسانوں کی نہیں۔ اسکے علاوہ یورپ میں جو اموات ہوئی یا تو بم دھماکوں سے دشمن کا ایک علاقہ پکڑنے پر دوسروں کو قتل کرنا یا جرائم کی وجہ سے ہوئے تھے ان میں مسلمان عیسائی اور یہودی وغیرہ ہر مذہب کے لوگ مارے تھے مگر جنگ عظیم اول میں جس طرح خلافت کے خاتمے کے لیے سعودی عرب وجود میں آیا اسی طرح جنگ عظیم دوئم کے بعد امریکہ کو عرب پر نظر رکھنے اور بحری راستوں کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک چوکیدار چاہیئے تھا جو اسرائیل کی شکل میں وجود میں آیا یورپ کی ان ساری اموات کو صرف یہودیوں سے جوڑا گیا اور اسکو ہولوکاسٹ کا نام دے کر جو اموات باقی دنیا میں برطانیہ اور امریکہ کے قتل عام اور ایٹم بم گرانے سے ہوئے تھے ان کو چھپایا گیا اور امریکہ منافقانہ کردار کے زریعے سے دنیا کی نظر میں حود کو معصوم ثابت کرنے کے لیے یہ سب یہودی ہولوکاسٹ کا ڈرامہ کیا۔ جبکہ اگر دیکھا جائے تو ظلم کا بازار تو ہندوستان میں گرام تھا جہاں لاکھوں لوگوں کو بھوک سے مارا گیا اور لاکھوں کو بھوک کی بہوشی کی عالم میں زندہ جلایا گیے۔
1943
ء کے بنگال کے قحط کے بارے میں ونسٹن چرچل نے کہا تھا "مجھے ہندوستانیوں سے نفرت ہے۔یہ جنگلی لوگ ہیں اور ان کا مذہب بھی جنگلی ہے۔ قحط ان کی اپنی غلطی ہے کیونکہ وہ خرگوشوں کی طرح آبادی بڑھاتے ہیں"۔ 1945ء میں چرچل کو نوبل انعام برائے امن کے لیے نامزد کیا گیا مگر اسے یہ انعام نہ مل سکا۔ اس لیے 1953 ء میں چرچل کو ادب کا نوبل انعام دیا گیا۔
Talking about the Bengal famine in 1943, Churchill said: “I hate Indians. They are a beastly people with a beastly religion. The famine was their own fault for breeding like rabbits.”
1943-1944
ء کے بنگال کے قحط کی وجہ خراب فصل نہیں تھی۔ انگریز سارا غلہ دوسرے ممالک میں اپنی برسرپیکار فوجوں کو بھیج رہے تھے جس کی وجہ سے غلے کی قلت ہو گئی تھی۔ انگریزوں کو یہ خطرہ بھی تھا کہ جاپانی برما کی طرف سے ہندوستان میں نہ داخل ہو جائیں اس لیے انہوں نے بنگال کا سارا اناج برآمد کر دیا کہ جاپانی فوج کو غلہ نہ مل سکے۔ اس قحط میں 30 لاکھ لوگ مر گئے۔ یہ سرکاری عدد وشمار ہے جب خقیقت میں یہ امورت 30 لاکھ سے کئ گنا زیادہ تھی۔
امریکہ کی جنگ میں شمولیت۔
جاپان نے امریکہ اور برطانیہ کے مختلف علاقوں پر 7 دسمبر 1941 پر حملہ کیا اس کی وجوہات یہ تھی امریکہ پہلے جنگ عظیم کی طرح غیر جانبدار رہا۔ تیل اور دوسری چیزیں جاپان اور دوسرے ممالک کو بیچ کر پیسے کما رہا تھا۔ یہ امریکہ کا منافقانہ کردار تھا جو ہر دور کا سامراجی طاقت کرتی ہے امریکہ اس جنگ میں بنیادی طور پر برطانیہ کو سپورٹ کر رہا تھا مگر جیسے ہی امریکہ کو پتہ چلا کہ چاپان جنگ میں برطانیہ پر حاوی ہو رہا ہے اور آسکی وجہ سے عنقریب چاپان جنگ جیت کر سارے بندرگاہوں اور برطانوی کالونیوں کا مالک بن جائے گا جس کی وجہ دنیا میں یا دنیا پر حکمرانی چاپان اور جرمنی کی ہو جائے گی اور وہی سب کچھ لوٹ لینگے۔ امریکہ برطانیہ اور فرانس سامراجی ٹولہ حتم ہو جائے گا اور دنیا کی بہت سارے معاملات چاپان جرمنی کے زیر تسلط ہونگے اور دنیا پر ان ہی دو ممالک کا حکم چلے گا جو امریکہ کیسی صورت برداشت نہیں کر سکتا تھا کیونکہ امریکہ حود سامراج کے طور پر پوری دنیا کو اپنی گرفت میں کرنا چاہتا تھا۔ اسلئے امریکہ کا منافقانہ کردار کھل کر سامنے آیا اس نے چاپان پر تیل اور دوسری جنگی اشیاء اسلحہ وغیرہ فروحت کرنا بند کیا اس وقت دنیا میں جہازوں کی لڑائی، ڈینکوں فوج بردار گاڑیوں کے لیے تیل کی بہت ضرورت تھی یعنی جنگ عظیم دوم میں تیل کا مرکزی کردار تھا جو چاپان امریکہ سے خریدتا تھا۔ امریکہ نے منافقانہ کردار کے زریعے پہلے مختلف ممالک کو اسلحہ خوراک اور تیل وغیرہ فروحت کر کے حوب پیسے کمائیں اور حود نا صرف طاقتور بن گا بلکہ جاسوسی کا پورا نظام پھیلایا امریکہ یہی چاہتا تھا کیونکہ باقی ممالک جنگ کی وجہ سے کمزور ہو جائینگے اور امریکہ آسانی سے فتح حاصل کر کے پوری دنیا کو کنٹرول میں کر لے گا۔ امریکہ نے چاپان کو اپنے تیل اسلحہ خوراک وغیر فروحت سے انکار کرنے کے بعد اسی راستے برطانیہ کو تیل خوراک وغیر کی سپلائی جاری رکھا اور اوپر سے جن علاقوں کے ذریعے امریکہ برطانیہ کو ترسیلات کر رہا تھا وہ چاپان کے راستے سے یغنی چاپان کے قبضہ کیے ہوئے راستے تھے۔چاپان نے امریکہ کو کھل کر کہا کہ آپ نے غیر جانبداری کا اعلان کیا تھا تو آپ اگر مجھے کچھ فروحت نہیں کرنا چاہتے تو میرے دشمنوں کو بھی فروحت نا کرے امریکا اس جنگ میں کیسی بھی طرح شمولیت چاہتا تھا کیونکہ برطانیہ کی شکست کی صورت میں سامراجی ٹولہ کی شکست جس میں امریکہ منافق بھی شامل تھا ۔ لکین امریکہ کو اس جنگ میں شمولیت کے لیے فوج یغنی بہت سارے نوجوانوں اور اپنی قوم کی طرف سے ہمایت کی ضرورت تھی اور یہ صرف اسی صورت ممکن تھا جب امریکہ پر حملہ ہو امریکہ تیل خوراک اور اسلحہ کی سپلائی اپنی بندرگاہ جس کا نام پرل ہاربر تھا کے زریعے کررہا تھا یہ بندرگاہ امریکہ کے جزائر ہوائی میں ہے جو امریکہ سے باہر سمندر میں ہے اور اسی بندرگاہ کے ذریعے امریکہ دوسرے ممالک کو اسلحہ خوراک وغیر کی سپلائی کر رہا تھا کیونکے یہاں سے ہندوستان چین اور اطراف کے امریکہ نواز اتحاد ممالک جو اس وقت چاپان اور چاپان کے دوست ممالک کے ساتھ مصروف جنگ تھے سب سے زیادہ اس بندرگاہ کے قریب تھے۔ مزے کی بات یہ کہ اس وقت چین کے اندر کمیونسٹ چاپان کے خلاف لڑ رہے تھے کیونکے چاپان چین پر بھی حملہ کیا تھا تو امریکہ ان کمیونسٹ کو خفیہ طور پر اور برطانیہ اور برطانوی اتحاد کھل کر ان کو سپورٹ کر رہا تھے تاکہ چاپان کے حلاف جنگ میں افرادی قوت میں مدد دے سکے۔ چاپان پر اشیاء وغیرہ کی فروحت سے انکار کرنے کے بعد ان کمیونسٹوں کی امریکہ کھل کر حمایت کرنے لگا۔
اسلئے چاپان نے اس بندرگاہ پر حملے کا ارادہ کیا اس حملے کا مقصد اس بندرگاہ کو حتم کرنا تھا کیونکے دوسری طرف امریکہ کی سپلائی کی وجہ سے برطانیہ اور کمیونسٹ مسلسل طاقتوں ہو رہے تھے۔ امریکہ کے اوپر سامراجی طبقے جو اصل کپیثلسٹ تھے کو معلوم تھا کہ یہ حملہ جلد ہی ہونے والا ہے اور وہ یہی حملہ چاہتے تھے تکہ امریکی عوام اور دوسرے چھوٹے بڑے سرمایہ داروں کی حمایت حاصل ہو کر پوری طاقت سے جنگ میں شامل ہو جائے چاپان نے 353 ہوائی جہازوں کے ذریعے اس بندرگاہ کو حتم کرنے کے لیے حملہ کیا اس کے نتیجے میں امریکا کے 8 بحری جہاز تباہ اور نو کو شدید نقصان پہنچا 2403 امریکی فوجی اور 68 شہری ہلاک ہوئے۔ حیرانی کی بات یہ ہے کہ امریکہ کو کئ مرتبہ چاپان کی دھمکیاں اور سب سے حیران کن بات کہ چاپان اور امریکے کے اس جزیرے کے درمیان 4025 میل کا فاصلہ ہے اتنی دور سے چاپان کے بحری بیڑوں کا آنا اور پھر ان بحری بیڑوں کا امریکہ کے اس جزیرے کے قریب ٹھہرنا (جنگی جہاز کو سب سے پہلے بحری بیڑوں میں لے جاتے ہیں اور پھر وہاں سے ان جہازوں کی اڑان ہوتی ہے تاکہ دوبارہ تیل اور بم وغیرہ ڈالنے کے لیے اسی جہاز پر لینڈ بھی کرے اور ساتھ میں تیل کا استعمال بھی کم ہو اتنی) اور اسکے باوجود امریکہ کو اس کا پتہ نہیں چلا ہو گا؟ نہیں امریکہ کو اس حملے کے بارے میں سب پتہ تھا مگر میں جو اوپر لکھ چکی ہو کہ امریکہ کو اپنے عوام کی حمایت کے لیے کوئی بہانا چاہئے تھا اور یہ اچھا موقعہ تھا۔ چاپان کا یہ خیال تھا کہ اس بندرگاہ کی تباہی کے بعد امریکہ جب تک یہ بندرگاہ بنائے گا تب تک ہم چیت چکے ہونگے یا پھر امریکہ ڈر کر جنگ میں شمولیت یا دوسرے ممالک کو اسلحہ خوراک وغیر فروخت کرنے بند کرے گا مگر امریک نے پہلے سے ہی پلان بنایا تھا اور جنگ میں کھود پڑا ایک نئی طاقت تازہ دم پہلوان اور پہلے سے ہی جاسوسی کا جال بچھائے ہوئے 1942 میں جنگ میں شامل ہو کر چاپان اور دوسرے اتحادیوں کی بینڈ بجادی۔ اس طرح چاپان اور امریکہ کے درمیان محتلف بندرگاہوں کے قبضے کے لیے 1942-1944 کے درمیان بہت سارے جنگیں ہوئی۔ چاپان اور جرمنی ایک دوسرے کے اتحادی تھے ایک طرف ہٹلر کی فوج روس کی سردیوں میں پھنس کر مرنے لگی تھی تو دوسری طرف چین نے برطانیہ اور امریکہ کی مدد سے چاپان کو ہارا کر چین سے نکل دیا۔ چاپان بہت مشکل میں ایک طرف چین دوسری طرف برطانیہ اور فرانس اور سب سے بڑ کر امریکہ ۔ چاپان اور امریکہ کے درمیان ایک جنگ لڑی گئی جس کو midway جنگ کے نام سے جانا جاتا ہے چونکے اس کو midway اس لئے کہتے ہیں کیونکے یہ جنگ امریکہ اور ایشیا کے درمیان سمندر میں لڑی گئی۔ مختصر اس دولت اور دنیا پر حکمرانی اور قبضے کی جنگ میں امریکہ شامل ہوکر پوری دنیا پر حکمرانی کرنا چاہتا تھا تاکہ سارے ممالک ان سے ڈر کر ان کی حکم مانے یغنی دنیا پر کپیثلسٹ بلاک کی حکمرانی۔
1942 امریکہ کی جنگ میں شمولیت کے بعد حالات۔
ہٹلر کی فوج کی روس کی سردیوں میں پھنسنے کے بعد روسی افواج جو پہلے سے سردیوں کے ساتھ عادی تھے انھوں نے آسانی سے جرمنی کی سردیوں کی وجہ سے مرتی ہوئی فوج کو پیچھے دھکیلنا شروع کیا۔
اس طرح جرمنی اٹلی بھی افریقی ممالک میں ہارنے لگی دوسری طرف برطانیہ امریکہ اور فرانس نے اٹلی کی سیاسی جماعتوں کو خرید کر موسولینی کے حلاف بڑکایا کیونکے موسولینی نے ان سامراجی سیاسی جماعتوں کو لات مار کر نکالی تھی مگر سامراجی پروپیگنڈے میں آکر لوگوں نے موسولینی کو مار ڈالا جیسے لیبیائی عوام نے سامراجی پروپیگنڈے کا شکار ہو کر قدافی کو شہید کیا تھا۔
1944 تک روس نے یورپ کی کافی مقدار میں ممالک کو اپنے قبضے میں کر کے جرمنی کو پیچھے دھکیل دیا۔
اس طرح الائیڈ پاور جو امریکہ برطانیہ اور فرانس پر مشتمل تھا سارے علاقوں سے چاپان کو نکال کر چاپان کو چاپان تک محدود کر کے چاپان کی ساری طاقت حتم کر دی چاپان کی مثال ایک اسیے لاچار مجرم کی طرح ہوگئی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے کٹہرے میں کھڑا ہو۔ جرمنی بھی شکست کھا کر پوری طرح ان ممالک کی کنٹرول میں تھی۔
اسی طرح جنگ عظیم دوئم پوری طرح اختتام پذیر ہوئی صرف نئے ممالک اور نئے سامراج کا علان کرنا باقی تھا۔ امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم گرا کر پوری دنیا کو یہ بتایا کہ اب حکومت میری ہوگی۔ یہاں ایک چیز بیان کرتی چلو کہ کچھ یورپ اور امریکہ سے متاثر دانشورانہ ذہنیت کے لوگ یہ کہتے ہیں کہ اگر امریکہ نے ایٹم بم نا گریا ہوتا تو جنگ عظیم دوئم کا خاتمہ نا ہوتے یہ سب جھوٹ ہے ایسا کچھ نہیں تھا چاپان پہلے سے ہی بری طرح شکست کھا چکا تھا چاپان کے پاس فوجی طاقت وغیرہ۔ بہت کمزور اور نا ہونے کے برابر تھی چاپان حود تک محدود ہو چکا تھے کب کے ہتیار ڈال چکا تھا۔
اور اس طرح 6 اور 9 اگست 1945 کودوسری جنگ عظیم میں ایک انسانی تاریخ کا سب سے شرمناک واقعہ پیش آیا جو آج بھی تاریخ کا بدترین دن مانا جاتا ہے۔ اس دن کو امریکا نے جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی میں ایٹم بم گرایا جس نے دیکھتے ہی دیکھتے 2 سے 3 لاکھ کے درمیان لوگوں کی جان لی۔ آج اس دن کے بارے میں سوچا جاتا ہے تو آنکھوں سے آنسوں امڈ پڑتے ہیں کہ کیا ایسے انسان بھی ہوسکتے ہیں جو لاکھوں بے گناہ لوگوں کی جان منٹوں میں لے لیتا ہیں۔ اس واقعے نے پورے انسانیت کے دیواروں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ایٹمی بمباری کے بعد دیکھتے ہی دیکھتے معصوم لوگوں کے جسموں سے گوشت بگلنے لگا۔ اس دن کو تاریخ میں سیاہ ترین دن سمجھا جاتا ہے۔ اسی بمباری کی وجہ ہے کہ آج بھی اگر ہیروشیما یا ناگاساکی میں لوگ پیدا ہوتے ہیں تو ان میں کوئی نہ کوئی خلقی نقص پایا جاتا ہے۔
مگر یہاں پر امریکہ کے آیٹم بم گرانے کا مقصد Capitalism کےNew World Order
کا اعلان کرنا تھا جس کے نتیجے میں امریکا سپرپاور کی شکل میں نیا سرمایہ دارانہ قوت کے طور پر آگے آیا اور UNO کی شکل میں پوری دنیا کو کنٹرول کرنے لگا جو آج تک کر رہا ہے۔
آج بھی ہمارے ملک کی نظام امریکہ اور برطانوی نواز لوگوں کے کنٹرول میں ہے یہی وجہ ہے کہ جس طرح انگریزوں نے ہندوستان کو لوٹا آج وہ بھی اسی نظام کے زریعے ہمارے ملک کو لوٹنے میں مصروف ہے۔ ختم شدہ
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں